آدھے راستے میں چڑھائی کرتے ہوئے اچانک گاڑی سلپ ہوئی اور نیچے کھائی کی طرف گرگئی‘ نیچے انتہائی گہری کھائی تھی‘ گاڑی گرتے گرتے اچانک کسی چیز کے ساتھ اٹک گئی‘ سورۂ رحمٰن کی تلاوت جاری تھی‘ آٹھ سیٹس والی بھاری وین نامعلوم کس چیز سے اٹکی ہوئی تھی
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! مجھے میری دوست نے عبقری دیا‘ پھر کیا تھا تمام رسائل‘ نیوز پیپرز بند کردئیے اور عبقری کی ہوکر رہ گئی بلکہ اوروں کو بھی پڑھایا وہ بھی مستقل خریدار بن گئے۔ٹوٹکے‘ وظائف اور دیگر آپ تو واقعی خدمت خلق کررہے ہیں۔ آپ کو مولاپاک اجرعظیم عطا فرمائیں۔ آمین۔ ایک سچا واقعہ ایک عرصہ سے لکھنا چاہ رہی تھی مگر لکھ نہ پاتی تھی۔ آج بہت ہمت کرکے لکھ رہی ہوں اللہ کامیاب کرے بلکہ میں قارئین کو بھی نصیحت کروں گی کہ خدا کیلئے اپنی گاڑیوں خصوصاً دوران سفر گانوں کے بجائے ’’قرآنی آیات‘‘ سنا کریں۔ اب آتی ہوں واقعہ کی طرف: میری عادت ہے گھر سے چلتے وقت دو رکعت نماز پڑھ کر آیۃ الکرسی پڑھ کر اپنے گھر پر اور ساتھ جانے والوں پر دم کرتی ہوں اور پڑھ کر دعا اور دم کرتی رہتی ہوں۔ اس کی برکت سےدوران سفر خیریت رہتی ہے۔ اس عمل کی ایک برکت یہ ہے کہ ایک مرتبہ رات کو ہمارے گھرمیں چور آگئے‘ جالی کاٹ کراندر داخل ہوگئے لیکن اس عمل کی برکت سے اندھے ہوگئے اور اللہ پاک نے ہمیں عظیم نقصان سے بچایا حالانکہ وہ اسلحہ لے کر آئے تھے کہ کوئی اٹھے تو ماریں‘ شکر ہے کہ کوئی بچہ نہیں اٹھا اور نقصان عظیم سے بچ گئے‘ نماز فجر کیلئے اٹھے‘ روشنی ہوئی تو بھاگ گئے۔ ہاں اب میں وہ واقعہ سنانے لگی ہوں جس کیلئے قلم اٹھایا۔ میرا بیٹا احمد امریکہ میں رہتا ہے وہیں اس نے بی ایس کمپیوٹر سائنسز، ایم بی اے اور پھر پی ایچ ڈی کی ڈگری لی اب وہ ماشاء اللہ ڈاکٹر متعین ہے بلکہ بہت سی کتب بھی لکھی ہیں جن میں ایک میرے نام سے منسوب کی ہے کہ میری عظیم ماں نے مجھے اس مقام تک لانے میں ’’جدائی‘‘ اور بہت تکالیف برداشت کیں وغیرہ وغیرہ ! ایک مرتبہ وہ لیکچرز کے سلسلے میں کیلفورنیا سے دوسرے شہر جارہا تھا تو سفر بہت لمبا تھا اپنے ساتھ اپنے برادر نسبتی کو بھی لے لیا۔ میں نے سختی سے تاکید کی کہ کوئی گانا نہیں لگے گا بلکہ میں نے ایک کیسٹ سورۂ رحمٰن‘ مزمل اور سورۂ یٰسین کی دی کہ بس یہ چلے گی۔ میں جب بھی سفر کرتی ہوں تو کلام الٰہی کا ورد کرتی رہتی ہوں جس کی وجہ سے الحمدللہ سکون رہتا ہے اور آرام سے منزل مقصود پر پہنچ جاتے ہیں۔ سیدھا راستہ چونکہ لمبا تھالہٰذا انہوں نے دوسرے چھوٹے راستہ سے جانا پسند کیا وہ راستہ جنگل پہاڑوں سے گزرتا تھا لیکن دوسرے راستے سے کافی چھوٹا تھا۔میرے بیٹے نے گانے لگانے چاہے تو اس کے برادر نسبتی نے منع کردیا کہ آنٹی نے منع کیا تھا اور تاکید کی تھی کہ قرآن پاک کی سورتیں ہی لگانی ہیں۔ اب وہ جس راستے سے جارہے تھے وہاں ہلکی ہلکی بارش اور برف باری شروع ہوگئی۔ آدھے راستے میں چڑھائی کرتے ہوئے اچانک گاڑی سلپ ہوئی اور نیچے کھائی کی طرف گرگئی‘ نیچے انتہائی گہری کھائی تھی‘ گاڑی گرتے گرتے اچانک کسی چیز کے ساتھ اٹک گئی‘ سورۂ رحمٰن کی تلاوت جاری تھی‘ آٹھ سیٹس والی بھاری وین نامعلوم کس چیز سے اٹکی ہوئی تھی دروازے لاک تھے‘ کھڑکی کے راستے بمشکل باہر نکلے جب باہر نکل کردیکھا تو گاڑی کے آگے صرف چند جھاڑیاں تھیں جو کہ ٹانگ مارنے سے بھی ٹوٹ سکتی تھیں مگر اللہ کی قدرت دیکھیں کہ اتنی بھاری وین انہوں نے روک رکھی تھی۔ باہر نکل کر اللہ کا رو رو کر شکر ادا کیا۔ اب پریشان کہ اجاڑ بیابان‘ شدید ٹھنڈ اور برف باری‘ سڑک کی ایک طرف کھڑے ہوگئے۔ خیر اللہ کی مہربانی ایک گاڑی آتی نظر آئی اسے ہاتھ دیا انہوں نے صورتحال دیکھی تو معذرت کرلی کہ معذرت بھائی ہمارے پاس رسی نہیں کہ آپ کی گاڑی کھینچ سکیں اور وہ روانہ ہوگئے‘ بہت مایوس ہوئے۔ خدا سے گڑگڑا کر دعائیں مانگنا شروع کردیں۔ گاڑی میں مسلسل سورۂ رحمٰن چل رہی تھی۔ رات کے دو بجے برف باری‘ ہو کا عالم‘ کوئی مدد نہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں سیدھے راستے سے جاؤ بے شک لمبا ہو۔ چھوٹے اور پرخطر راستے سے ہرگز نہ جاؤ بے شک چھوٹا ہو۔ گڑگڑا کر دعائیں مانگنے کے بعد اس کی مہربانی ہوئی اور سامنے سے ایک گاڑی آتی نظر آئی اور بغیر ہاتھ دئیے آکر رک گئی‘ گاڑی سے ایک بندہ نکلا اور گاڑی سے چین نکالی‘ گاڑی کے نیچے گھس کر چین لگائی پھر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی باہر نکالی۔ چین اتاری‘ اپنی گاڑی میں بیٹھا۔ میرے بیٹے نے بھاگ کر اس سے سلام لیا‘ ہاتھ میں کچھ ڈالرز زبردستی تھمادئیےاور وہ نیک آدمی جدھر سے آیا تھا اسی طرف واپس روانہ ہوگیا۔ بیٹے نے گاڑی دوڑائی کہ دیکھیں کدھر گیا‘ مگر دور دور
تک کوئی آبادی نہیں‘ جنگل‘ ہو کا عالم۔ حیرت ہوئی کہ کدھر گیا۔ میں نے بیٹے سے حلیہ پوچھا تو بیٹے نے بتایا: لمبا قد، سفید رنگ، سفید ڈاڑھی‘ نورانی چہرہ انتہائی خوبصورت تھا۔ میں نے کہا میرا گمان ہے کہ وہ حضرت خضرعلیہ الصلوٰۃ والسلام ہی تھے جو آپ کی مدد کیلئے آئے اور جدھر سے آئے ادھر ہی واپس ہوگئے۔ ذرا سوچیے! ہے نا بہت خوف ناک واقعہ‘ کم ازکم میں تو بہت زیادہ خوفزدہ ہوئی۔ میں نے فون کرکے بیٹے کو کہا بیٹا! میں بہت پریشان ہوں‘ ساری رات سو نہیں سکی‘ تمہارے لیے جائے نماز پر بیٹھی اللہ پاک سے گڑگڑا کر دعائیں کررہی تھی۔ آپ ﷺ کے صدقے میں دامن پھیلائے دعائیں مانگ رہی تھی۔ تو بیٹے نے کہا پیاری امی جان! فون کیسے کرتا؟ فون تو گاڑی کے اندر تھا‘ اب ہوٹل میں آیا ہوں تو فون اٹینڈ کررہا ہوں اور پیاری امی جان یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے اور آپ کی دعائیں اور سورۂ رحمٰن کی برکت جو اس وقت چل رہی تھی کہ ’’تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘ خدا کا شکر ہے کہ میرے اکلوتے بیٹے کو خدا نے اپنی امان میں رکھا اور اب میرا بچہ امریکہ جیسے ملک میں سائنٹسٹ ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تمام مسلمانوں کے بچوں کو رزق حلال، نماز روزے کا پابند اور آپ ﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ میرے پیارے ملک پاکستان میں امن، سکون اور سلامتی لائے۔ آمین! آخر میں میں والدین سے عرض کروں گی کہ اپنے بچوں کو دینی تعلیم دیں اور رزق حلال کھلائیں ان پر نظر رکھیں تو انشاء اللہ کبھی خراب نہ ہوں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں